*وہ کون تھا؟*
 |
Wo kon tha? |
یہ وہ سوال تھا جس کا جواب ایک سچے مخلص نڈر جرات مند بہادر محب وطن شہری نے کرپٹ مافیا ز سے پوچھنے کی جسارت کر دی جس کے نتیجے میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا جی ہاں میرا اشارہ پاکستان کے دلیر ، باضمیر،محب وطن صحافی،اینکرپرسن ارشد شریف کی طرف ہے جس کا قصور بس اتنا تھا کہ اس کرپٹ گندے نظام کے خلاف آواز اٹھائی جس نے رجیم چینج آپریشن کے خلاف حق کا ساتھ دیا سوالات اٹھائے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی ہم غلامی کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟ ہمارے ہاتھ کس نے اور کیوں باندھے ہوئے ہیں ؟ لیکن یہی اس کا قصور بن گیا غدار ی کے مقدمات بنائے گئے اس انسان پر جس کی فیملی نے اس وطن عزیز کے لئے اپنی جانیں قربان کیں
جس نے حقیقی آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے اپنی نوکری چھوڑ دی ملک چھوڑ دیا لیکن غلامی قبول نہیں کی وہ غدار ہو سکتا ہے بہادر اتنا کہ دیار غیر میں بھی اس کرپٹ مافیا کو بے نقاب کرتا رہا کیوں کہ وہ بکنے اور جھکنے والا انسان ہی نہیں تھا ایک باضمیر انسان جس نے اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا ظالموں نے اسے اس جرم کے بدلے اس کی زندگی ہی چھین لی آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا کتنے اور لوگوں کو مارو اور مرواؤ گے اس ملک کا اب ہر بچہ بچہ ارشد شریف ھے کتنے لوگ مارو گے ؟ جو بھی سچ بولے گا مارتے جاؤ گے لیکن اب حقیقی آزادی کی تحریک دبنے والی نہیں ہے اس ملک کی غیور عوام اب حقیقی آزادی حاصل کر کے رہیں گے ہر گلی محلے سے ارشد شریف نکلے گا
ہمارے بزرگوں نے اس لیے یہ ملک اتنی قربانیاں دے کہ حاصل نہیں کیا تھا کہ کوئی بھی باہر سے آکر ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے اب ملک کا ہر فیصلہ اس کی غیور عوام کرے گی غلامی کی زندگی کسی صورت قابل قبول نہیں ایک عرصے سے جن زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں وہ سب توڑ دیں گے سوال کرے گی حساب لےگی اور یہ فنڈا مینٹل رائیٹس اسے ملک کے آئین نے دیئے ہیں اگر پاکستان کے شہری اپنے ان بنیادی حقوق کو استعمال نہیں کر سکتے سوال نہیں کر سکتے تو اس آئین کو پھاڑ دینا چاہیے پھر
حق رائے دہی ہر شہری کا بنیادی حق ھے اور اسی اپنے حق کو استعمال کرتے ہوئے سینئر صحافی ارشد شریف نے کچھ سوالات اٹھائے تھے اس گندے فرسودہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی تھی لیکن کیا ہوا اسے جان سے ہی مار دیا گیا لیکن اس کی یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی سوال پوچھے جائیں گے حساب مانگا جائے گا ایک دن احتساب ہوگا جیسے ارشد شریف کو یو-اے-ای سے نکلوایا گیا اس کے گرد گھیرا تنگ کیا کینیا میں اس کا جس سفاکی سے قتل کیا گیا حساب دینا ہوگا ایک دن پکڑ میں آئیں گے انشاء اللہ ارشد شریف مر کے بھی جیت گیا یہ کرپٹ نظام ہار گیا
دیکھنا یہ ہے کہ ہماری عدلیہ اب بھی خاموش تماشائی بنی رہے گی یا مقتول کے ورثاء کو انصاف دلانے میں کوئی رول پلے ادا کرے گی ؟ ایک سوال سب کے لیے چھوڑے جارہی ہوں ایمانداری سے اپنے تمام ذاتی مفادات کو چھوڑ کر اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ کر اس کا جواب تلاش کرنا کہ وہ کون تھا غدار یا محب وطن؟
*ارشد شریف کے نام حبیب جالب کا یہ کلام*
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے۔ کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے ظلم کی بات کو جہل کی رات کو۔ میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو۔ چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو۔ میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں۔ تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا ایسےدستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
Comments
Post a Comment